تیری آنکھوں پہ گھنے خوابوں کا پہرہ ہوں میں
اس تعلق سے ہی کس درجہ سنہرا ہوں میں
لوگ کیوں گھور کے سچائی مجھے دیکھتے ہیں
ایسا لگتا ہے کہ جیسے ترا چہرہ ہوں میں
خود کو کھو دو گے مری تہہ تلک آتے آتے
لفظ ہوں لفظ سمندر سے بھی گہرا ہوں میں
تو ادھر خط مرا پڑھتی ہے تو لگتا ہے مجھے
تیری آنکھوں کے حسیں شہر میں ٹھہرا ہوں میں
ایک پتھر ہوں اگر تجھ سے کہیں دور ہوں
تجھ سے چھو جاؤں تو صد خوشبو کا لہرا ہوں میں
غزل
تیری آنکھوں پہ گھنے خوابوں کا پہرہ ہوں میں
سلطان سبحانی