تیرے توسن کو صبا باندھتے ہیں
ہم بھی مضموں کی ہوا باندھتے ہیں
آہ کا کس نے اثر دیکھا ہے
ہم بھی ایک اپنی ہوا باندھتے ہیں
تیری فرصت کے مقابل اے عمر
برق کو پابہ حنا باندھتے ہیں
قید ہستی سے رہائی معلوم
اشک کو بے سر و پا باندھتے ہیں
نشۂ رنگ سے ہے واشد گل
مست کب بند قبا باندھتے ہیں
غلطی ہائے مضامیں مت پوچھ
لوگ نالے کو رسا باندھتے ہیں
اہل تدبیر کی واماندگیاں
آبلوں پر بھی حنا باندھتے ہیں
سادہ پرکار ہیں خوباں غالبؔ
ہم سے پیمان وفا باندھتے ہیں
پاؤں میں جب وہ حنا باندھتے ہیں
میرے ہاتھوں کو جدا باندھتے ہیں
حسن افسردہ دلی ہا رنگیں
شوق کو پا بہ حنا باندھتے ہیں
قید میں بھی ہے اسیری آزاد
چشم زنجیر کو وا باندھتے ہیں
شیخ جی کعبے کا جانا معلوم
آپ مسجد میں گدھا باندھتے ہیں
کس کا دل زلف سے بھاگا کہ اسدؔ
دست شانہ بہ قضا باندھتے ہیں
تیرے بیمار پہ ہیں فریادی
وہ جو کاغذ میں دوا باندھتے ہیں
غزل
تیرے توسن کو صبا باندھتے ہیں
مرزا غالب