تیرے تصورات سے بچنا ہے اب محال بھی
کچھ تو ہے تیری فکر بھی کچھ ہے ترا خیال بھی
اے دوست آ کے دیکھ لے عشق کا یہ کمال بھی
تو ہی مرا جواب ہے تو ہی مرا سوال بھی
آئی تمہاری یاد جب ڈھل گئی لمحوں میں صدی
ایسا لگا کہ رک گئی گردش ماہ و سال بھی
دوری کے باوجود بھی ٹکرا رہی ہے سانس اب
ایسی جدائی پر کروں قربان صد وصال بھی
کوئی زمانے میں نہیں جس پہ ہو تیرا عکس بھی
کس سے مثال دوں تری ملتی نہیں مثال بھی
ناز کبھی نہ کیجئے اپنے عروج حال پر
بعد کمال اے ضیاؔ آتا ہے اک زوال بھی
غزل
تیرے تصورات سے بچنا ہے اب محال بھی
سید ضیا علوی