تیرے سورج کو تری شام سے پہچانتے ہیں
زندگی ہم تجھے انجام سے پہچانتے ہیں
کس قدر دھوپ کماتا ہے یہاں کوئی اسے
رونق مشغلۂ شام سے پہچانتے ہیں
عشق والے تو اٹھاتے ہی نہیں اپنی نگاہ
حسن کو حسن کے احکام سے پہچانتے ہیں
خاص انداز سے خط لکھتا ہے وہ پردہ نشیں
ہم اسے ندرت پیغام سے پہچانتے ہیں
کون کرتا ہے پس پردۂ آئینہ کلام
عکس کو حیرت الہام سے پہچانتے ہیں
سخت تکلیف اٹھائی ہے اسے جاننے میں
اس لیے اب اسے آرام سے پہچانتے ہیں
سچ پھٹے حال سا پھرتا ہے گلی کوچوں میں
سچ کو اکثر اسی انجام سے پہچانتے ہیں
میں نے تردید تو بھیجی تھی پہ شائع نہ ہوئی
اہل شہر اب مجھے الزام سے پہچانتے ہیں
کیسے نقاد ہیں یہ اتنی بڑی شاعری کو
بس رعایات سے ایہام سے پہچانتے ہیں
فرحتؔ احساس کبھی گھر سے نکلتا ہی نہیں
شہر والے اسے بس نام سے پہچانتے ہیں
غزل
تیرے سورج کو تری شام سے پہچانتے ہیں
فرحت احساس