تیرے حسن کی خیر بنا دے اک دن کا سلطان مجھے
آنکھوں کو بس دیکھنے دے اور ہونٹوں سے پہچان مجھے
وصل میں اس کے مر جانے کی حسرت میرے دل میں ہے
اور بچھڑ کر جینے کا بھی باقی ہے ارمان مجھے
خون رگوں میں رک جائے گا لیکن سانس نہ اکھڑے گی
کس کو بھول کے خوش بیٹھا ہوں جب آئے گا دھیان مجھے
میں ہوں ایک اور بیس صدی کا میری مانگ ملنگوں سی
ہر اک پل کی خبر بھی دے اور برسوں کا سامان مجھے
کیسے پھول اور کون سے کانٹے یاد کی جھولی خالی ہے
اب تو تصورؔ لگنے لگا ہے ویرانہ ویران مجھے

غزل
تیرے حسن کی خیر بنا دے اک دن کا سلطان مجھے
ہربنس تصور