تیرے ہونٹوں پہ نظر باقی ہے
کس کے ہونے کی خبر باقی ہے
کتنے خوش رنگ بدن دھول ہوئے
وقت کی چال مگر باقی ہے
آج بھی غم کی سلامی کے لئے
دل کا آباد نگر باقی ہے
شب کی قندیل اٹھانے والے
دیکھ چہروں پہ سحر باقی ہے
درد کا چہرہ تھا برباد ہوا
دشت میں سوکھا شجر باقی ہے
خوں جواں خون سے ہولی کھیلو
چند قدموں کا سفر باقی ہے
غزل
تیرے ہونٹوں پہ نظر باقی ہے
اعظم خورشید