EN हिंदी
تیرے ہونٹوں پہ نظر باقی ہے | شیح شیری
tere honTon pe nazar baqi hai

غزل

تیرے ہونٹوں پہ نظر باقی ہے

اعظم خورشید

;

تیرے ہونٹوں پہ نظر باقی ہے
کس کے ہونے کی خبر باقی ہے

کتنے خوش رنگ بدن دھول ہوئے
وقت کی چال مگر باقی ہے

آج بھی غم کی سلامی کے لئے
دل کا آباد نگر باقی ہے

شب کی قندیل اٹھانے والے
دیکھ چہروں پہ سحر باقی ہے

درد کا چہرہ تھا برباد ہوا
دشت میں سوکھا شجر باقی ہے

خوں جواں خون سے ہولی کھیلو
چند قدموں کا سفر باقی ہے