EN हिंदी
تیرے حصے کا بچ گیا ہے کچھ | شیح شیری
tere hisse ka bach gaya hai kuchh

غزل

تیرے حصے کا بچ گیا ہے کچھ

نشانت شری واستو نایاب

;

تیرے حصے کا بچ گیا ہے کچھ
میری آنکھوں میں چبھ رہا ہے کچھ

ہم بھی ماہر ہیں اب تیرے فن میں
دل میں ہے کچھ مگر کہا ہے کچھ

یاد کرنا تمہیں ہے عادت میں
ورنہ دل میں نہیں بچہ ہے کچھ

دن میں بھی سوچتے ہیں ہم تجھ کو
رات اس بات پے خفا ہے کچھ

نہ ہوا میرا اور نہ اس کا ہی
دل کے ہونے کا فائدہ ہے کچھ

اک ستارہ کے ٹوٹ جانے سے
عرش کا بوجھ بڑھ گیا ہے کچھ

تیری آنکھیں جسے میسر ہوں
پھر کہاں اس کو آئنہ ہے کچھ

جان نکلی نہ تیرے جانے پہ
میرے حق میں عجب سزا ہے کچھ

صرف میرے نہیں ہیں یہ آنسو
ان میں حصہ رقیب کا ہے کچھ

اب دعائیں مری نہیں سنتا
عرش بوڑھا سا ہو گیا ہے کچھ