تیرے ہی غم سے میری طبیعت بہل گئی
تو یاد آ گیا تو مری جاں سنبھل گئی
اب یاد ہے کہاں مجھے ماضی کی داستاں
میں تجھ سے کیا ملی مری دنیا بدل گئی
جو میرے گیسوؤں کا گرفتار تو ہوا
میں بھی تو تیرے عشق کے سانچے میں ڈھل گئی
روشن سی ہو گئی ہے مرے دل کی کائنات
جو تیری آرزؤں کی اک شمع جل گئی
دامن خیال یار کا دست طلب میں ہے
غم میں بھی زندہ رہنے کی صورت نکل گئی
جب سے یہ شہر چھوڑ کے کوئی چلا گیا
سچ کہہ رہی ہوں رونق شام غزل گئی

غزل
تیرے ہی غم سے میری طبیعت بہل گئی
مینو بخشی