تیرے حسین جسم کی پھولوں میں باس ہے
گو وہم ہے یہ وہم قرین قیاس ہے
وہ اشک جس پہ چاندنی شب کا لباس ہے
شاید کتاب غم کا کوئی اقتباس ہے
میری طرح ہر اک کو ہے چاہت اسی کی پھر
گزرے دنوں کے زہر میں کتنی مٹھاس ہے
برسوں گزر گئے مگر اب تک نہیں بجھی
کتنی عجیب ریت کے ساحل کی پیاس ہے
میری صدا کھچ اس طرح آئی ہے لوٹ کر
محسوس ہو رہا ہے کوئی آس پاس ہے
بوندیں پڑیں تو اور زیادہ ہوئی تپش
شاید اسی کا نام زمیں کی بھڑاس ہے
اپنے گھروں میں خوش ہیں چراغوں کو لے کے لوگ
کس کو خبر کہ رات کا چہرہ اداس ہے
دھندلا سا زرد ماضی کا ہو جس طرح ورق
کتنا حسین آپ کا رنگ لباس ہے
کس وقت کیفؔ ٹوٹ کے گر جائے کیا خبر
پلکوں پہ ایک حلقۂ زنجیر یاس ہے
غزل
تیرے حسین جسم کی پھولوں میں باس ہے
کیف انصاری