EN हिंदी
تیرے دل سے اتر چکا ہوں میں | شیح شیری
tere dil se utar chuka hun main

غزل

تیرے دل سے اتر چکا ہوں میں

عمران شناور

;

تیرے دل سے اتر چکا ہوں میں
ایسا لگتا ہے مر چکا ہوں میں

اب مجھے کس طرح سمیٹو گے
ریزہ ریزہ بکھر چکا ہوں میں

تیری بے اعتنائیوں کے سبب
ظرف کہتا ہے بھر چکا ہوں میں

تجھ کو ساری دعائیں لگ جائیں
اب تو جینے سے ڈر چکا ہوں میں

ایک غم اور منتظر ہے مرا
ایک غم سے گزر چکا ہوں میں

تجھ کو نفرت سے ہی نہیں فرصت
چاہتوں میں سنور چکا ہوں میں

آئینہ اب نہیں ہے گرد آلود
رو چکا ہوں نکھر چکا ہوں میں

خود سے لڑنا بہت ہی مشکل ہے
تیری خاطر یہ کر چکا ہوں میں

اب تو باہر نکال پانی سے
دیکھ اب تو ابھر چکا ہوں میں