تیرے آنے کی خبر دیتی رہی پاگل ہوا
تجھ تلک میری حیا لے کر گئی پاگل ہوا
دھوپ کچی شام تنہا اور اندھیروں کا ہجوم
ان میں اپنا عکس دکھلاتی چلی پاگل ہوا
دن ڈھلے گھر لوٹ آنا قفل کرنا حسرتیں
کیوں نہیں یہ ختم ہوتا سوچتی پاگل ہوا
شہر میں تیرے ہیں تجھ کو بھولنے کی ضد بڑی
بے سبب دل کی بڑھاتی بیکلی پاگل ہوا
اب تو یہ عالم مگر وہ خوش نہیں میں بھی نہیں
اس کا ہر غم مجھ سے اکثر بانٹتی پاگل ہوا
لب پہ آتی بات رہ جاتی لبوں کے درمیاں
عام مت کر راز دل کہہ روکتی پاگل ہوا
حکمراں کہنے لگا ہے چور ہے سارے مکیں
دیکھتی اہل وطن کی بے بسی پاگل ہوا

غزل
تیرے آنے کی خبر دیتی رہی پاگل ہوا
مونیکا سنگھ