تیرے آنے کا گماں ہوتا ہے
کس زمانے کا گماں ہوتا ہے
سنگ ریزوں پہ بھی اب چڑیوں کو
دانے دانے کا گماں ہوتا ہے
میں کھنڈر ہوں تو جہاں کو مجھ میں
اک خزانے کا گماں ہوتا ہے
ایک تصویر ہوں غم کی جس پر
مسکرانے کا گماں ہوتا ہے
پیڑ کٹتے ہیں تو ہر تنکے پر
آشیانے کا گماں ہوتا ہے
دل کہاں اب تو کسی طائر کے
پھڑپھڑانے کا گماں ہوتا ہے
اس زمانے میں نہیں ہیں ہم تم
جس زمانے کا گماں ہوتا ہے
مے لرزتی ہے تو دنیا تجھ پر
ڈگمگانے کا گماں ہوتا ہے
غزل
تیرے آنے کا گماں ہوتا ہے
اشرف یوسف