تیرے آگے یار نو یار کہن دونوں ہیں ایک
زاغ زشت اور طوطئ شکر شکن دونوں ہیں ایک
میں سیہ بخت اور رقیب رو سیاہ ہم رنگ ہیں
قیر تیرے پاس اور مشک ختن دونوں ہیں ایک
نغمہ کش کیا داستاں اپنی سنائے واں جہاں
صورت بلبل اور فریاد زغن دونوں ہیں ایک
ہو رقیب مردہ شو پر ہو نہ کیوں روشن بیاں
یاں چراغ گور و شمع انجمن دونوں ہیں ایک
لطفؔ کی آزاد وضعی سے مزا کیا خاک اٹھائیں
یاں زقوم دوزخ و سرو چمن دونوں ہیں ایک
غزل
تیرے آگے یار نو یار کہن دونوں ہیں ایک
مرزا علی لطف