تیرا کیا جاتا جو ملتا جام ریحانی مجھے
مے کے بدلے ساقیا تو نے دیا پانی مجھے
مے گساری میں وہ اب پہلی سی کیفیت نہیں
دے دیا ساقی نے کیا بے کیف سا پانی مجھے
اب کسی مشروب سے دل چین پا سکتا نہیں
کاش وہ آ کے پلا دے تیغ کا پانی مجھے
دے دیا ساقی نے بھر کر مجھ کو بھی جام شراب
میں تو کہتا ہی رہا پانی مجھے پانی مجھے
اس کو جانوں یار مخلص اس کو مانوں غم گسار
جو پلا دے رنج میں کلفت ربا پانی مجھے
چل پڑیں سانسیں دھڑکنے لگ گئیں نبض حیات
کیا کسی نے دے دیا انگور کا پانی مجھے
وہ تپ غم ہے کہ سوکھے ہیں لب و کام و دہن
کاش آ کر وہ پلائیں دید کا پانی مجھے
پی رہا ہوں شوق سے اے رازؔ جس کو آج تک
ایک دن آخر ڈبو دے گا وہی پانی مجھے

غزل
تیرا کیا جاتا جو ملتا جام ریحانی مجھے
راز لائلپوری