تیرا ہی نشان پا رہا ہوں میں
یہ پہاڑ جو اٹھا رہا ہوں میں
ایک عمر کی منافرت کے بعد
اب تجھے سمجھ میں آ رہا ہوں میں
تو ادھر سے آ جدھر رکے ہیں سب
دوسری طرف سے آ رہا ہوں میں
ایک پل کبھی تو تھم مرے لیے
ساری عمر دوڑتا رہا ہوں میں
میری نا رسائیوں کی حد ہے یہ
اپنے سامنے سے آ رہا ہوں میں
غزل
تیرا ہی نشان پا رہا ہوں میں
عتیق اللہ