تیرا چہرہ نہ مرا حسن نظر ہے سب کچھ
ہاں مگر درد دل خاک بسر ہے سب کچھ
میرے خوابوں سے الگ میرے سرابوں سے جدا
اس محبت میں کوئی وہم مگر ہے سب کچھ
بات تو تب ہے کہ تو بھی ہو مقابل میرے
جان من پھر ترا خنجر مرا سر ہے سب کچھ
تیری مرضی ہے اسے چاہے تو سیراب کرے
اس بیاباں کو تری ایک نظر ہے سب کچھ
مثل مضمون غزل کچھ نہیں یہ ہجر و وصال
ہاں وہی یار طرح دار مگر ہے سب کچھ
غزل
تیرا چہرہ نہ مرا حسن نظر ہے سب کچھ
مہتاب حیدر نقوی

