تیرا چہرہ جو میرے دل میں اتر آیا ہے
ہر بشر سنگ لیے مجھ کو نظر آیا ہے
کتنی مغرور تھی یہ رات ابھی تک لیکن
ایک ننھا سا دیا لے کے سحر آیا ہے
جس کو پالا تھا محبت سے ہمیشہ میں نے
آستینوں میں وہ چھپ کر میرے گھر آیا ہے
بد دعائیں تو غریبوں کی نہیں ہیں تجھ پر
تو جو شہرت کی بلندی سے اتر آیا ہے
منزل عشق کو آسان سمجھنے والوں
کتنے صحراؤں سے گزرا ہوں تو گھر آیا ہے
یہ چمن یوں ہی تو سرسبز نہیں ہے مظہرؔ
ہم نے سینچا ہے لہو سے تو ثمر آیا ہے
غزل
تیرا چہرہ جو میرے دل میں اتر آیا ہے
مظہر عباس