EN हिंदी
تیرا ارماں تری حسرت کے سوا کچھ بھی نہیں | شیح شیری
tera arman teri hasrat ke siwa kuchh bhi nahin

غزل

تیرا ارماں تری حسرت کے سوا کچھ بھی نہیں

مینو بخشی

;

تیرا ارماں تری حسرت کے سوا کچھ بھی نہیں
دل میں اب تیری محبت کے سوا کچھ بھی نہیں

زندگی مجھ کو کہاں لے کے چلی آئی ہے
دور تک سایۂ ظلمت کے سوا کچھ بھی نہیں

ہر طرف پھول حقیقت کے کھلے ہیں لیکن
آنکھ میں خواب حقیقت کے سوا کچھ بھی نہیں

یوں ترے غم میں ہوں پامال کہ لگتا ہے مجھے
زندگی جیسے اذیت کے سوا کچھ بھی نہیں

رہ گئی دب کے مرے دل ہی میں امید وصال
اب ملال شب فرقت کے سوا کچھ بھی نہیں

بات کیا ہے کہ مرے دوستوں کے ہاتھوں میں
سنگ دشنام و ملامت کے سوا کچھ بھی نہیں

شعر کہتے ہو تو یہ بات بھی نظروں میں رہے
شاعری شرح طبیعت کے سوا کچھ بھی نہیں