تسکین دل کو اشک الم کیا بہاؤں میں
جو آگ خود لگائی ہے کیوں کر بجھاؤں میں
برباد کر چکے وہ میں برباد ہو چکا
اب کیا رہا ہے روؤں اور ان کو رلاؤں میں
لاچک، نسیم صبح، پیام وصال دوست
کب تک مثال شمع رگ جاں جلاؤں میں
اے عشق کیا یہی ہے مکافات آرزو
اپنی ہی خاک ہاتھ سے اپنے اڑاؤں میں
رویا یونہی جو ہجر میں شب بھر تو کیا عجب
تارے کی طرح وقت سحر ڈوب جاؤں میں
غزل
تسکین دل کو اشک الم کیا بہاؤں میں
اثر لکھنوی