تشکیل بدر کی ہے کبھی ہے ہلال کی
دنیا ہے اک شبیہ عروج و زوال کی
پھولوں سے ہے لدی ہوئی ہر شاخ گلستاں
رکھ لی خدا نے آبرو دست زوال کی
جنت فروش حوروں کے دلال خرقہ پوش
کیا پوچھتے ہو واعظ فرخندہ فال کی
ان مہ وشوں کو پردے سے باہر نکال کے
دنیا مٹائی جاتی ہے حسن و جمال کی
مجھ کو ملا ہے وہ دل بے مدعا سریرؔ
جس کو غم فراق نہ حسرت وصال کی

غزل
تشکیل بدر کی ہے کبھی ہے ہلال کی
سریر کابری