تصورات میں وہ زوم کر رہا تھا مجھے
بہت شدید توجہ کا سامنا تھا مجھے
چمک رہا تھا میں سورج کے مثل اس لئے دوست
کہیں پہ جا کے اندھیرے میں ڈوبنا تھا مجھے
مجھے وہاں سے اداسی بلا رہی تھی آج
جہاں سے شام و سحر کوئی دیکھتا تھا مجھے
پھر اس کو جا کے بتانا پڑا غلط ہے یہ
سمجھنے والے نے کیا کیا سمجھ رکھا تھا مجھے
گزر نہ پایا تھا جو جونؔ ایلیا سے بھی
تمہارے بعد وہ لمحہ گزارنا تھا مجھے
لہولہان ہوئے جا رہے تھے ہر منظر
کسی نے وقت کے ماتھے پہ یوں لکھا تھا مجھے
میں اپنی نیند اگر ٹوٹنے نہیں دیتا
اس ایک خواب سے ہر وقت ٹوٹنا تھا مجھے
غزل
تصورات میں وہ زوم کر رہا تھا مجھے
انعام عازمی