EN हिंदी
تصور تیری صورت کا مجھے ہر شب ستاتا ہے | شیح شیری
tasawwur teri surat ka mujhe har shab satata hai

غزل

تصور تیری صورت کا مجھے ہر شب ستاتا ہے

مصحفی غلام ہمدانی

;

تصور تیری صورت کا مجھے ہر شب ستاتا ہے
کبھو پاس آئے ہے میرے کبھو پھر بھاگ جاتا ہے

خدا جانے تجھے اس کی خبر ہے یا نہیں ظالم
کہ وہ اک آن میں کیا کیا سمیں مجھ کو دکھاتا ہے

بلائیں اس کی میں لیتا ہوں چٹ چٹ اٹھ کے جس ساعت
مری چالاکیوں کو دیکھے ہے اور مسکراتا ہے

جو اٹھتا ہوں تو کہتا ہے ''کدھر جاتا ہے ایدھر آ''
جو بیٹھوں ہوں تو کہتا ہے کہ ''میں جاتا ہوں آتا ہے''

جو روتا ہوں تو کہتا ہے تو کیوں روتا ہے دیوانے
جو سر زانو پہ رکھتا ہوں تو ہاتھوں سے اٹھاتا ہے

جو جاگوں ہوں تو کہتا ہے ''کہیں اب سو بھی رہ ناداں''
جو سوتا ہوں تو چٹکی لے کے اک دل میں جگاتا ہے

کبھی ہو جائے ہے غائب نظر سے بات کے کہتے
کبھی پھر سامنے ہو کر کھڑا باتیں بناتا ہے

کبھی دکھلائے ہے پنڈے کا لطف اور گات کا عالم
کبھی نزدیک آ بالوں کی اپنے بو سنگھاتا ہے

غرض اے مصحفیؔ میں کیا کہوں شب تا سحر یو ہیں
نہ اس کو چین آتا ہے نہ مجھ کو چین آتا ہے