تصور میں یہ کون آیا زباں پر کس کا نام آیا
نشاط روح کا ہر اک نفس لے کر پیام آیا
وفور بے خودی میں ایک ایسا بھی مقام آیا
نہ دنیا میرے کام آئی نہ میں دنیا کے کام آیا
عقیدت سے جبیں جھک جھک گئی راہ محبت میں
جہاں ان کا خیال آیا جہاں ان کا مقام آیا
زمانہ کو تو دنیا بھر کی خوشیاں بخش دیں تو نے
مرے حصہ میں آیا بھی تو سوز ناتمام آیا
رہا کچھ ہوش بھی باقی تو ان کے حسن زیبا کا
اگر آیا تو لب پر بے خودی میں ان کا نام آیا
غم دوراں غم دنیا غم ہستی غلط ٹھہرے
جہاں کی گردشیں ٹھہریں جہاں گردش میں جام آیا
نگاہوں پر جمال دوست پردہ بن کے چھاتا ہے
سنبھلنا دیکھنا عارفؔ بڑا مشکل مقام آیا

غزل
تصور میں یہ کون آیا زباں پر کس کا نام آیا
محمد عثمان عارف