تصور کے سہارے یوں شب غم ختم کی میں نے
جہاں دل کی خلش ابھری تمہیں آواز دی میں نے
طلب کی راہ میں کھا کر شکست آگہی میں نے
جنوں کی کامیابی پر مبارک باد دی میں نے
دم آخر بہت اچھا کیا تشریف لے آئے
سلام رخصتانہ کو پکارا تھا ابھی میں نے
زباں سے جب نہ کچھ یارائے شرح آرزو پایا
نگاہوں سے حضور حسن اکثر بات کی میں نے
نشیمن کو بھی اک پرتو قفس کا جان کر انورؔ
بسا اوقات کی ہے بجلیوں کی رہبری میں نے
غزل
تصور کے سہارے یوں شب غم ختم کی میں نے
انور صابری