تسلی کو ہماری باغباں کچھ اور کہتا ہے
گلستاں سے مگر اڑتا دھواں کچھ اور کہتا ہے
بہم کچھ سازشیں پھر ہو رہی ہیں برق و باراں میں
ہر اک طائر سے لیکن آشیاں کچھ اور کہتا ہے
سمجھتے ہیں خدا معلوم کیا کچھ کارواں والے
زباں میں اپنی میر کارواں کچھ اور کہتا ہے
نہ پھولو اس طرح سے نغمۂ مرغ خوش الحاں پر
تمہیں آوازۂ بانگ اذاں کچھ اور کہتا ہے
مگر محروم زاہد ہو گیا ہے گوش شنوا سے
اسے بت خانے میں حسن بتاں کچھ اور کہتا ہے
یہ خوش فہمی کہ کچھ سمجھے ہوئے ہیں انجمن والے
مگر ہر اک سے رنگ داستاں کچھ اور کہتا ہے
ٹھہر جا ہاں ٹھہر جا جانے والے اس کو سنتا جا
بہ حال نزع تیرا نیم جاں کچھ اور کہتا ہے
مخالف اس کے کچھ کچھ آ رہی ہیں دل کی آوازیں
مگر ہم سے حجاب درمیاں کچھ اور کہتا ہے
نہ رہنا چاہئے گلشن میں مرعوب خزاں ہو کر
کہ ہم سے آج رنگ گلستاں کچھ اور کہتا ہے
غزل
تسلی کو ہماری باغباں کچھ اور کہتا ہے
غبار بھٹی