ترک جس دن سے کیا ہم نے شکیبائی کا
جا بجا شہر میں چرچا ہوا رسوائی کا
غیر داغ دل صد چاک نہ مونس نہ رفیق
زور عالم پہ ہے عالم مری تنہائی کا
پہروں ہی اپنے تئیں آپ ہوں بھولا رہتا
دھیان آتا ہے جب اپنے مجھے ہرجائی کا
زلزلہ گور میں مجنوں کی پڑا رہتا ہے
اپنا یہ شور ہے اب بادیہ پیمائی کا
جلوہ اس کا ہے ہر اک گھر میں بسان خورشید
فرق ہے اپنی فقط آہ یہ بینائی کا
کلمۂ حق بھی دم نزع نہ نکلا منہ سے
شیخ کو دھیان تھا ایسا بت ترسائی کا
کشش نالہ اسے کہتے ہیں اب وہ جو سرورؔ
محو نظارہ ہوا اپنے تماشائی کا
غزل
ترک جس دن سے کیا ہم نے شکیبائی کا
رجب علی بیگ سرور