EN हिंदी
ترقی کا وہ دعویٰ کر رہا ہے | شیح شیری
taraqqi ka wo dawa kar raha hai

غزل

ترقی کا وہ دعویٰ کر رہا ہے

محمد اظہر شمس

;

ترقی کا وہ دعویٰ کر رہا ہے
مگر ہر شخص فاقہ کر رہا ہے

وہ دیکھے ہے مکانات بلندی
وہ اجڑے گھر سے پردہ کر رہا ہے

مفاد اولیت چاہنے میں
وہ انسانوں کا سودا کر رہا ہے

برابر میں کمی بیشی کو رکھ کر
ترقی کا ارادہ کر رہا ہے

دہائی دے کے وہ جمہوریت کی
نظام خواب رسوا کر رہا ہے

ہوئے حکام اب سارے لٹیرے
دل حالات نالہ کر رہا ہے