طرب کا رنگ رخ گل پہ آشکار آیا
کلی سی کھل گئی جوں ہی وہ گلعذار آیا
تڑپ کے جان نکل جائے گی ابھی صیاد
نہ کہیو باغ میں پھر موسم بہار آیا
ملا میں خاک میں مر مر کے آہ پر تو بھی
نہ بے قرارئ دل کے تئیں قرار آیا
مری وفا پہ تجھے روز شک تھا اے ظالم
یہ سر یہ تیغ ہے لے اب تو اعتبار آیا
یہ شوق دیکھو پس مرگ بھی تجلیؔ نے
کفن میں کھول دیں آنکھیں سنا جو یار آیا

غزل
طرب کا رنگ رخ گل پہ آشکار آیا
میاں حاجی تجلی