تپتے صحرا میں یہ خوشبو ساتھ کہاں سے آئی
ذکر زمانے کا تھا تیری بات کہاں سے آئی
جلتی دھوپ کے لشکر کے خیمے کس نے توڑ دیے
جھلمل کرتے تاروں کی بارات کہاں سے آئی
بیتے لمحے لوٹے بھی تو یاد بنے یا خواب
پرچھائیں تھی پرچھائیں پھر بات کہاں سے آئی
چاند ابھی تو نکلا ہی تھا کیسے ڈوب گیا
میرے آنگن میں یہ کالی رات کہاں سے آئی

غزل
تپتے صحرا میں یہ خوشبو ساتھ کہاں سے آئی
مغنی تبسم