EN हिंदी
تپتے صحرا میں یہ خوشبو ساتھ کہاں سے آئی | شیح شیری
tapte sahra mein ye KHushbu sath kahan se aai

غزل

تپتے صحرا میں یہ خوشبو ساتھ کہاں سے آئی

مغنی تبسم

;

تپتے صحرا میں یہ خوشبو ساتھ کہاں سے آئی
ذکر زمانے کا تھا تیری بات کہاں سے آئی

جلتی دھوپ کے لشکر کے خیمے کس نے توڑ دیے
جھلمل کرتے تاروں کی بارات کہاں سے آئی

بیتے لمحے لوٹے بھی تو یاد بنے یا خواب
پرچھائیں تھی پرچھائیں پھر بات کہاں سے آئی

چاند ابھی تو نکلا ہی تھا کیسے ڈوب گیا
میرے آنگن میں یہ کالی رات کہاں سے آئی