تپش سے پھر نغمۂ جنوں کی سرود و چنگ و رباب ٹوٹے
کسی حقیقت کے ایک سنگ گراں سے ٹکرا کے خواب ٹوٹے
حیات کی جوئے درد و غم میں سفینے امید و آرزو کے
بشکل موج نسیم ابھرے برنگ جسم حباب ٹوٹے
سنا رہی ہیں وفا کی راہیں شکست پرواز کا فسانہ
کہ دور تک وادیٔ طلب میں پڑے ہیں ہر سمت خواب ٹوٹے
برہنہ پا آؤ تم بھی ہمدم بس اب تو صحرائے آرزو میں
تمازت ریگ آگہی سے طلسم موج سراب ٹوٹے
یہی ہے بزم مے گساراں تو شرط صد احتیاط کیوں ہو
کسی کے ہاتھوں میں جام چھلکے کسی کا بند نقاب ٹوٹے
چٹخ رہے ہیں دلوں کے ساغر مگر یہ فرمان چارہ گر ہے
نہ کوئی چشم پر آب چھلکے نہ کوئی جام شراب ٹوٹے
غزل
تپش سے پھر نغمۂ جنوں کی سرود و چنگ و رباب ٹوٹے
زاہدہ زیدی