طپش دل نہ رہی سوزش جاں باقی ہے
شعلۂ عشق کہاں صرف دھواں باقی ہے
بے حسی میں بھی یہ احساس رہا ہے اکثر
ایک نشتر سا قریب رگ جاں باقی ہے
مے کشو گردش دوراں سے ہراساں کیوں ہو
سر مے خانہ ابھی ابر رواں باقی ہے
ذکر آتا ہے جفاؤں کا ترے نام کے ساتھ
دل برباد کا اتنا تو نشاں باقی ہے
مدتیں ہو گئیں پیمان وفا کو ٹوٹے
اس جفا جو سے مگر ربط نہاں باقی ہے
زندگی سلسلۂ عشرت موہوم سہی
غم سلامت ہے تو آسائش جاں باقی ہے
منزل ترک تمنا ہے جناب عارفؔ
دل میں اب بھی ہوس لالہ رخاں باقی ہے
غزل
طپش دل نہ رہی سوزش جاں باقی ہے
عارف عباسی