طنز کی تیغ مجھی پر سبھی کھینچے ہوں گے
آپ جب اور مرے اور نگیچے ہوں گے
آئنہ پوچھے گا جب رات کہاں تھے صاحب
اپنی بانہوں میں وہ اپنے ہی کو بھینچے ہوں گے
جس طرف چاہئے گا آپ چلے جائیے گا
سامنے چاند کے ہم آنکھوں کو میچے ہوں گے
آج پھر گزریں گے قاتل کی گلی سے ہم لوگ
آج پھر بند مکانوں کے دریچے ہوں گے
جس کی ہر شاخ پہ رادھائیں مچلتی ہوں گی
دیکھنا کرشن اسی پیڑ کے نیچے ہوں گے
اک مکاں اور بھی ہے شیش محل کے لوگو
جس میں دہلیز نہ آنگن نہ دریچے ہوں گے
تیرا دم ہے تو بہاروں کو سکوں ہے بیکلؔ
پھر ترے بعد کہاں باغ بغیچے ہوں گے
غزل
طنز کی تیغ مجھی پر سبھی کھینچے ہوں گے
بیکل اتساہی