EN हिंदी
تنہائی میں دکھتے لمحے جب کچھ یاد دلاتے ہیں | شیح شیری
tanhai mein dikhte lamhe jab kuchh yaad dilate hain

غزل

تنہائی میں دکھتے لمحے جب کچھ یاد دلاتے ہیں

وشو ناتھ درد

;

تنہائی میں دکھتے لمحے جب کچھ یاد دلاتے ہیں
سائے سائے کتنے چہرے آنکھوں میں پھر جاتے ہیں

اب تو اچھے دل والوں کا قحط سا پڑتا جاتا ہے
لیکن نقلی چہرے والے دل اپنا بھرماتے ہیں

چھو جاتی ہے جب بھی آ کر یادوں کی پروائی سی
ننھے ننھے کتنے دیپک پلکوں میں جل جاتے ہیں

اپنوں میں بیگانہ بن کر زندہ رہنا مشکل ہے
لیکن دیکھ زمانے ہم کو ہم جی کر دکھلاتے ہیں

جانے کب سے ہم بیٹھے ہیں سوچوں کے چوراہے پر
چورنگی کا میلہ ہے جگ ہم بھی دیکھے جاتے ہیں