تنہائی کے شعلوں پہ مچلنے کے لیے تھا
کیا مجھ سا جواں آگ میں جلنے کے لیے تھا
کیا کاتب تقدیر سے زخموں کی شکایت
جو تیر تھا ترکش میں سو چلنے کے لیے تھا
جلتا ہے مرے دل میں پڑا داغ کی صورت
جو چاند سر عرش نکلنے کے لیے تھا
اس جھیل میں تجھ سے بھی کوئی لہر نہ اٹھی
اور تو مری تقدیر بدلنے کے لیے تھا
مایوس نہ جا آ غم دوراں مرے نزدیک
تو ہی مری بانہوں میں مچلنے کے لیے تھا
یہ ڈستی ہوئی رات گزر جائے گی یارو
وہ ہنستا ہوا دن بھی تو ڈھلنے کے لیے تھا
کچھ آنچ مرے لمس کی گرمی سے بھی پہنچی
وہ برف سا پیکر بھی پگھلنے کے لیے تھا
تفریق نے ملکوں کی تراشے ہیں عقائد
انسان بس اک راہ پہ چلنے کے لیے تھا
زندہ ہے مری فکر مرے کرب سے زلفیؔ
یہ پھول اسی شاخ پہ پھلنے کے لیے تھا

غزل
تنہائی کے شعلوں پہ مچلنے کے لیے تھا
سیف زلفی