تنہائی کے سب دن ہیں تنہائی کی سب راتیں
اب ہونے لگیں ان سے خلوت میں ملاقاتیں
ہر آن تسلی ہے ہر لحظہ تشفی ہے
ہر وقت ہے دل جوئی ہر دم ہیں مداراتیں
معراج کی سی حاصل سجدوں میں ہے کیفیت
اک فاسق و فاجر میں اور ایسی کراماتیں
بیٹھا ہوا توبہ کی تو خیر منایا کر
ٹلتی نہیں یوں جوہرؔ اس دیس کی برساتیں
غزل
تنہائی کے سب دن ہیں تنہائی کی سب راتیں
محمد علی جوہرؔ