تنہا چھوڑ کے جانے والے اک دن پچھتاؤ گے
آس کا سورج ڈوب رہا ہے لوٹ کے گھر کب آؤ گے
نفرت کو محصور کیا ہے الفت کی دیواروں میں
جن راہوں سے گزرو گے تم پیار کی خوش بو پاؤگے
دل کی ویراں نگری پہ اب غم کے بادل چھائے ہیں
دکھ کی کالی رات میں بولو کب تک ساتھ نبھاؤ گے
کوئل تو پتھر کے ڈر سے آخر کو اڑ جائے گی
بادل تو پاگل ہے اس کو کیسے تم سمجھاؤ گے
تم تو خود صحرا کی صورت بکھرے بکھرے لگتے ہو
فرخؔ سے فرخؔ کو سوچو کیسے تم ملواؤ گے
غزل
تنہا چھوڑ کے جانے والے اک دن پچھتاؤ گے
فرخ زہرا گیلانی