EN हिंदी
تنہا اپنی ذات لیے پھرتا ہوں میں | شیح شیری
tanha apni zat liye phirta hun main

غزل

تنہا اپنی ذات لیے پھرتا ہوں میں

سورج نرائن

;

تنہا اپنی ذات لیے پھرتا ہوں میں
خود کو اپنے ساتھ لیے پھرتا ہوں میں

لفظوں کا سیلاب انڈیلوں خاک یہاں
ننھی سی اک بات لیے پھرتا ہوں میں

بڑی بڑی دیواریں کیسے توڑوں گا!!
چھوٹے چھوٹے ہاتھ لیے پھرتا ہوں میں

ہری بھری بیلوں کا قصہ کیا لکھوں
سوکھے سوکھے پات لیے پھرتا ہوں میں

سورجؔ اپنے دل کی اجڑی بستی میں
یادوں کی بارات لیے پھرتا ہوں میں