تنگیٔ دہن سے ہے اڑی بات
چھوٹا سا ہے منہ ترا بڑی بات
کیا چرب زباں وہ شعلہ رو ہے
لب تک آ کر پھسل پڑی بات
مطلب پر اگر زبان دو تم
ہو منہ سے ابھی نکل کھڑی بات
دل شیشۂ ساعت اپنا بن جائے
ساقی نہ کرے جو دو گھڑی بات
ہیں پیٹ کی ہلکی وہ صدف ساں
موتی کی طرح نکل پڑی بات
غزل
تنگیٔ دہن سے ہے اڑی بات
خواجہ محمد وزیر لکھنوی

