تنگ آ گئے ہیں کیا کریں اس زندگی سے ہم
گھبرا کے پوچھتے ہیں اکیلے میں جی سے ہم
مجبوریوں کو اپنی کہیں کیا کسی سے ہم
لائے گئے ہیں، آئے نہیں ہیں خوشی سے ہم
کمبخت دل کی مان گئے، بیٹھنا پڑا
یوں تو ہزار بار اٹھے اس گلی سے ہم
یا رب! برا بھی ہو دل خانہ خراب کا
شرما رہے ہیں اس کی بدولت کسی سے ہم
دن ہی پہاڑ ہے شب غم کیا ہو کیا نہ ہو
گھبرا رہے ہیں آج سر شام ہی سے ہم
دیکھا نہ تم نے آنکھ اٹھا کر بھی ایک بار
گزرے ہزار بار تمہاری گلی سے ہم
مطلب یہی نہیں دل خانہ خراب کا
کہنے میں اس کے آئیں گزر جائیں جی سے ہم
چھیڑا عدو نے روٹھ گئے ساری بزم سے
بولے کہ اب نہ بات کریں گے کسی سے ہم
تم سن کے کیا کرو گے کہانی غریب کی
جو سب کی سن رہا ہے کہیں گے اسی سے ہم
محفل میں اس نے غیر کو پہلو میں دی جگہ
گزری جو دل پہ کیا کہیں بسملؔ کسی سے ہم
غزل
تنگ آ گئے ہیں کیا کریں اس زندگی سے ہم
بسملؔ عظیم آبادی