تنگ آ گئے ہیں کشمکش آشیاں سے ہم
اب جا رہے ہیں آپ کے اس گلستاں سے ہم
صیاد نے جو کاٹ دیئے بال و پر تمام
فریاد آج کرتے ہیں اس باغباں سے ہم
بجلی چمک رہی ہے نشیمن کی خیر ہو
مایوس ہو گئے ہیں کچھ اب آشیاں سے ہم
فصل بہار ہے اجی گانے کے روز ہیں
کنج قفس میں بیٹھے ہیں اک بے زباں سے ہم
ہر شخص ہے ہماری محبت پہ طعنہ زن
تنگ آ گئے ہیں اپنی ہی اس داستاں سے ہم
ان کی نوازشات بھی سب رائیگاں گئیں
نادم سے ہو رہے ہیں اب اک مہرباں سے ہم
یہ شکر ہے کہ دور نہیں منزل مراد
چھپ چھپ کے جا پہنچتے ہیں ہر پاسباں سے ہم
اے دل معاف کر دے نظامیؔ کی بے رخی
ڈرتے ہیں اس زمانے میں ہر بد گماں سے ہم
غزل
تنگ آ گئے ہیں کشمکش آشیاں سے ہم
صدیق احمد نظامی