EN हिंदी
تنگ آ گئے ہیں عشق میں اب زندگی سے ہم | شیح شیری
tang aa gae hain ishq mein ab zindagi se hum

غزل

تنگ آ گئے ہیں عشق میں اب زندگی سے ہم

مرلی دھر شاد

;

تنگ آ گئے ہیں عشق میں اب زندگی سے ہم
آئے قضا تو نذر کریں جاں خوشی سے ہم

ان کی خوشی سے بڑھ کے ہمیں کچھ نہیں عزیز
دل مال کیا ہے جان بھی دے دیں خوشی سے ہم

پوچھا تھا میں نے غیر نے کیا آپ سے کہا
بولے کسی کی بات کہیں کیوں کسی سے ہم

رخصت کی تجھ سے موت نے مہلت ہمیں نہ دی
بند آنکھ کر کے نکلے ہیں تیری گلی سے ہم

پرسان حال کون ہو بدلے ہوئے ہیں بھیس
بیٹھے ہیں ان کی بزم ہیں اک اجنبی سے ہم

پوچھو نہ ہم سے زیست کا لطف آ گیا ہمیں
جس دن سے روشناس ہوئے بے خودی سے ہم

ہم بھی ہیں اپنی وضع کے دنیا میں ایک سی
ممکن نہیں ملاپ کریں مدعی سے ہم

شادؔ اس طرح سے آج کیا اس نے مجھ کو شادؔ
دیکھو تو پھول بن گئے کھل کر کلی سے ہم