EN हिंदी
تندرستوں میں نہ بیماروں کے بیچ | شیح شیری
tanduruston mein na bimaron ke bich

غزل

تندرستوں میں نہ بیماروں کے بیچ

ماتم فضل محمد

;

تندرستوں میں نہ بیماروں کے بیچ
عشق کے ہوں میں دل افگاروں کے بیچ

عشق ہے سیر خدا اے دوستاں
اس لئے اشرف ہے اسراروں کے بیچ

منزل دور و دراز عشق میں
غم کو پایا ہم نے غم خواروں کے بیچ

دوستاں ہے لا دوا دور از شفا
عشق کا آزار آزاروں کے بیچ

اب تو ہے کنج قفس گھر پر کبھی
بلبلو تھے ہم بھی گلزاروں کے بیچ

کیا کہیں ہم کہہ نہیں سکتے ہیں یار
اندکوں میں ہے کہ بسیاروں کے بیچ

جس کے جویا مومن و مشرک ہیں وہ
سبحوں میں ہے نہ زناروں کے بیچ

رحم کر ہم پر بھی دل بر ہیں ترے
عشق کے ہاتھوں سے آواروں کے بیچ

گل نے تا دعویٰ کیا رخ سے ترے
بے قدر بکتا ہے بازاروں کے بیچ

یا حسین ابن علی ماتمؔ کو بھی
کیجے داخل اپنے زواروں کے بیچ