طنابیں کٹنے لگیں میری خوش بیانی کی
کہ اب وہ رت ہی نہیں تیری مہربانی کی
ڈبو دیا ہے مجھے میری خوش یقینی نے
یہ بات غور طلب ہے مری کہانی کی
خزاں میں ہجر کی ڈوبا وصال کا موسم
مگر ہے ذہن میں خوشبو سی رات رانی کی
کبھی تو آئے گا ساحل تری رفاقت کا
ابھی میں بیٹھا ہوں کشتی میں بد گمانی کی
شگفتہ لہجے میں وہ مجھ سے بولتا ہی نہیں
جہاں میں دھوم سی ہے جس کی خوش بیانی کی
کلی چٹک اٹھی ماحول ہو گیا گل بیز
جو بات آئی کبھی اس کی خوش بیانی کی
گلاب چہرے امیدوں کے بجھ گئے مہدیؔ
نہ بات کیجیئے موسم کی مہربانی کی

غزل
طنابیں کٹنے لگیں میری خوش بیانی کی
مہدی پرتاپ گڑھی