EN हिंदी
تن سے جب تک سانس کا رشتہ رہے گا | شیح شیری
tan se jab tak sans ka rishta rahega

غزل

تن سے جب تک سانس کا رشتہ رہے گا

شارق کیفی

;

تن سے جب تک سانس کا رشتہ رہے گا
میرے اشکوں میں ترا حصہ رہے گا

دور تک کوئی شناسا ہو نہیں ہو
بھیڑ میں اچھا مگر لگتا رہے گا

ایسے چھٹکارا نہیں دینا ہے اس کو
میں اگر مر جاؤں تو کیسا رہے گا

طے تو ہے الگاؤ بس یہ سوچنا ہے
کون سی رت میں یہ دکھ اچھا رہے گا

خود سے میری صلح ممکن ہی نہیں ہے
جب تلک اس گھر میں آئینہ رہے گا

یوں تو اب بستر ہے اور بیمار لیکن
سانس لینے میں مزہ آتا رہے گا

میں نے کتنے دن کسی کو یاد رکھا
وہ بھی کیوں میرے لئے روتا رہے گا