EN हिंदी
تمیز اپنے میں غیر میں کیا تمہیں جو اپنا نہ کر سکے ہم | شیح شیری
tamiz apne mein ghair mein kya tumhein jo apna na kar sake hum

غزل

تمیز اپنے میں غیر میں کیا تمہیں جو اپنا نہ کر سکے ہم

عزیز قیسی

;

تمیز اپنے میں غیر میں کیا تمہیں جو اپنا نہ کر سکے ہم
ہر ایک محفل ہوئی گوارا تمہاری محفل سے کیا اٹھے ہم

سحر پشیمان آرزو ہیں چراغ شب تھے سو جل بجھے ہم
خراج اشکوں کا خون دل سے جو ہم کو لینا تھا لے چکے ہم

نہ شمع کانپی نہ گیت ڈوبے اٹھے جو ہم ان کی انجمن سے
چلو بس اچھا ہوا کہ ایسے کہاں کے محفل فروز تھے ہم

نہ ہم سیاہی نہ ہم اجالا چراغ ہیں اشک آرزو کے
کہ ہم سر دشت بے کراں ہیں سلگتے رہتے ہیں شام سے ہم

نظر اٹھاؤ تو جھوم جائیں نظر جھکاؤ تو ڈگمگائیں
تمہاری نظروں سے سیکھتے ہیں طریق موت و حیات کے ہم

کریں جو شکوہ زباں کہاں ہے زباں میں تاب فغاں کہاں ہے
کہاں کا پردیس کیسی غربت وطن کی گلیوں میں لٹ گئے ہم

ہماری روداد مختصر ہے وفا کہاں کی جفا کہاں کی
برنگ گل مسکرا دیے وہ بہ طرز شبنم بکھر گئے ہم

عزیز قیسیؔ کہاں رہے تو کہ رات اس بت کی انجمن میں
ہجوم نغمہ میں ذکر سن کر کسی دوانے کا رو پڑے ہم