تمیز اپنے میں غیر میں کیا تمہیں جو اپنا نہ کر سکے ہم
ہر ایک محفل ہوئی گوارا تمہاری محفل سے کیا اٹھے ہم
سحر پشیمان آرزو ہیں چراغ شب تھے سو جل بجھے ہم
خراج اشکوں کا خون دل سے جو ہم کو لینا تھا لے چکے ہم
نہ شمع کانپی نہ گیت ڈوبے اٹھے جو ہم ان کی انجمن سے
چلو بس اچھا ہوا کہ ایسے کہاں کے محفل فروز تھے ہم
نہ ہم سیاہی نہ ہم اجالا چراغ ہیں اشک آرزو کے
کہ ہم سر دشت بے کراں ہیں سلگتے رہتے ہیں شام سے ہم
نظر اٹھاؤ تو جھوم جائیں نظر جھکاؤ تو ڈگمگائیں
تمہاری نظروں سے سیکھتے ہیں طریق موت و حیات کے ہم
کریں جو شکوہ زباں کہاں ہے زباں میں تاب فغاں کہاں ہے
کہاں کا پردیس کیسی غربت وطن کی گلیوں میں لٹ گئے ہم
ہماری روداد مختصر ہے وفا کہاں کی جفا کہاں کی
برنگ گل مسکرا دیے وہ بہ طرز شبنم بکھر گئے ہم
عزیز قیسیؔ کہاں رہے تو کہ رات اس بت کی انجمن میں
ہجوم نغمہ میں ذکر سن کر کسی دوانے کا رو پڑے ہم
غزل
تمیز اپنے میں غیر میں کیا تمہیں جو اپنا نہ کر سکے ہم
عزیز قیسی