تمناؤں میں الجھے رہ گئے ہیں
ہمارے بچے بوڑھے رہ گئے ہیں
وہ آنکھیں کتنا آگے جا چکی ہیں
سمندر کتنا پیچھے رہ گئے ہیں
ابھی تنہا وہ گزری ہے یہاں سے
ہزاروں دل دھڑکتے رہ گئے ہیں
جنہیں بانہوں میں بھر کر سو رہی ہو
بہت اچھے وہ تکیے رہ گئے ہیں
بظاہر اک نیا پن آ چکا ہے
مگر یہ دل پرانے رہ گئے ہیں
یہ کس نے خواب سے آ کر جگایا
ہم اس کو چھوتے چھوتے رہ گئے ہیں
کسی کو باغ حاصل ہو چکے ہیں
کہیں انگور کھٹے رہ گئے ہیں

غزل
تمناؤں میں الجھے رہ گئے ہیں
وسیم تاشف