تمنائیں اذیت کا نظارہ ہم نہ کہتے تھے
خسارا ہے خسارا ہی خسارا ہم نہ کہتے تھے
تمہاری انتہائیں انت پر بے سود نکلی ہیں
سمندر جتنا گہرا اتنا کھارا ہم نہ کہتے تھے
نہ تو بندوں سے ہے راضی نہ بندے تجھ سے راضی ہیں
خدائی روگ ہے پروردگارا ہم نہ کہتے تھے
یہ میدان تگ و دو ہے مشقت ہی مشقت ہے
وہی جیتے گا جو سو بار ہارا ہم نہ کہتے تھے
غلامی کو تو آزادی سمجھتے ہیں یہاں انساں
یہ ہتھکڑیوں میں کر لیں گے گزارا ہم نہ کہتے تھے
چنا تھا تو نے جو رستہ اسے ہم ترک کر آئے
سیانوں کو ہے کافی اک اشارا ہم نہ کہتے تھے
سبھی نے اپنے تنکے بھی بالآخر خود اٹھائے ہیں
نہیں ہوگا یہاں کوئی سہارا ہم نہ کہتے تھے
نہ ذیشانؔ آگہی پوری ہوئی عمریں ہوئیں پوری
نہ ہوگا علم کا کوئی کنارا ہم نہ کہتے تھے
غزل
تمنائیں اذیت کا نظارہ ہم نہ کہتے تھے
ذیشان ساجد