تمنا ہے کسی کی تیغ ہو اور اپنی گردن ہو
پھر اس کے بعد یا رب سر کٹے نالے میں مدفن ہو
ہجوم عام ہو اور مجتمع گوروں کی پلٹن ہو
سمجھ لو لوٹ آئے ہیں جو اسٹیشن پہ دن دن ہو
کہیں قاتل کو ہم محبوب اگر ہے عین نادانی
حذر لازم ہے ایسے شخص سے جو اپنا دشمن ہو
لب شیریں اگر معشوق کا قند مکرر ہے
جبھی جانیں کہ بیٹھیں مکھیاں اور اس پہ بھن بھن ہو
نہ تربت کی جگہ کوچے میں پائی تو شکایت کیا
گلی ان کی کوئی تکیہ ہے جس میں اپنا مدفن ہو
یہ سب لکڑی کے تختے خاک میں مل جائیں جل بھن کر
غضب ہو جائے گر سچ مچ لحد میں داغ روشن ہو
یہی دہشت اگر دست جنوں کی ہے تو اے بھائی
دوپٹہ اوڑھ لو جس میں گریباں ہو نہ دامن ہو
نگاہ شوق کیا ٹھہری وہ گویا بیلچہ ٹھہری
مکان یار کی دیوار میں جس سے کہ روزن ہو
مچائے شور و غل آہ شرر افشاں کرے ہر دم
یہی اوصاف لازم ہے تو عاشق کیوں ہو انجن ہو
ہمارا جونجھ پھلواری میں ہو کوئی نہیں کہتا
یہی کہتے ہیں یا رب باغ میں اپنا نشیمن ہو
ازل سے تا ابد لمبی یقیں ہے ٹانگ بھی ہوگی
حسین شوخ وہ صحرائے محشر جس کا دامن ہو
ظریفؔ انصاف سے کہہ دو وہ عاشق ہے کہ چوہا ہے
زمین قصر جاناں میں جو یہ چاہے کہ مسکن ہو
غزل
تمنا ہے کسی کی تیغ ہو اور اپنی گردن ہو
ظریف لکھنوی