تماشا پھر سر بازار کرنا
پھر اپنے عہد سے انکار کرنا
یہی ہے مشغلہ کار جنوں میں
بنانا پھر اسے مسمار کرنا
فریب آرزو ہی زندگی ہے
سرابوں میں سفر بے کار کرنا
جسے پانے کی خواہش میں جئے تھے
اسی کی ذات کا انکار کرنا
جزیرے خواہشوں کی راہ میں ہیں
مگر لازم سمندر پار کرنا
جسے اک عمر کی کاوش سے بھولے
اسی کی یاد پر اسرار کرنا
دریچوں سے لگی آنکھوں کی صورت
کبھی چھپنا کبھی اظہار کرنا
ابھی اک آخری سچ بولنا ہے
خوشی سے پھر سپرد دار کرنا

غزل
تماشا پھر سر بازار کرنا
فیاض تحسین