تمام عمر چلا ہوں مگر چلا نہ گیا
تری گلی کی طرف کوئی راستہ نہ گیا
ترے خیال نے پہنا شفق کا پیراہن
مری نگاہ سے رنگوں کا سلسلہ نہ گیا
بڑا عجیب ہے افسانۂ محبت بھی
زباں سے کیا یہ نگاہوں سے بھی کہا نہ گیا
ابھر رہے ہیں فضاؤں میں صبح کے آثار
یہ اور بات مرے دل کا ڈوبنا نہ گیا
کھلے دریچوں سے آیا نہ ایک جھونکا بھی
گھٹن بڑھی تو ہواؤں سے دوستانہ گیا
کسی کے ہجر سے آگے بڑھی نہ عمر مری
وہ رات بیت گئی نقشؔ رتجگا نہ گیا
غزل
تمام عمر چلا ہوں مگر چلا نہ گیا
نقش لائل پوری